کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے ، مرا موضوع سخن جانتے ہیں
تجھے کیا بتائیں کہ دلنشیں تیرے عشق میں تیری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پھول سے کبھی چاند چھت پر بلا لیا
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
ایسی وحشت __بھی نصیبوں سے ملا کرتی ہے.
ہم تجھے ہار کے ہنستے بھی ہیں ، خوش رہتے ہیں
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے